فیصل آباد کے کچہری بازار میں داخل ہوں تو بے ہنگم ٹریفک، فُٹ پاتھوں پر قبضہ جمائے بیٹھے موبائل فون دوکاندار اور ان کی دوکانوں کے سامنے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے کیے گئے سینکڑوں موٹر سائیکل آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
آپ یہاں پہنچتے ہی لوگوں کے رش اور ایک پتلی سی سڑک پر رواں دواں ٹریفک میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ اپنا آپ پہچاننا بھی دُشوار پڑ جاتا ہے۔
یہ اُس بازار کی موجودہ حالت ہے جسے ماضی میں فیصل آباد کا بہترین بازار ہونے کا درجہ حاصل رہا ہے اور شہر کی اشرافیہ سے لے کر ہر طبقے کے لوگ یہاں آکر خریداری کرنے میں اطمینان اور فخر محسوس کرتے تھے لیکن پھر وقت کے نشیب و فراز میں پُرانا کچہری بازار کہیں گُم ہو کر رہ گیا۔
جب 1903ء میں سر جیمز لائل نے لائلپور کی بنیاد رکھی تو شہر کے وسط میں برطانوی جھنڈے یونین جیک کی طرز پر آٹھ بازار اور ان کے درمیان میں گھنٹہ گھر بنایا گیا جہاں اس سے قبل میٹھے پانی کا ایک کنواں ہوا کرتا تھا۔ انہی آٹھ بازاروں میں سے ایک کچہری بازار انوکھی تاریخ کا حامل ہے۔
اس بازار میں گھڑیوں کا کام کرنے والے رفیق واچ کمپنی کے موجودہ مالک مجاہد رفیق نے سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے بڑوں نے سنہء 1947 میں کشمیر سے لائلپور آ کر اس بازار میں گھڑیوں کا کاروبار شروع کیا تھا۔
"میں نے بھی ستر کی دہائی میں والد صاحب کے ساتھ دوکان پر بیٹھنا شروع کیا۔ اُس وقت گھڑیوں کا کام اچھا تھا۔ میرے والد بتایا کرتے تھے کہ ستر کی دہائی سے قبل سرکلر روڈ سے کچہری بازار میں داخل ہوتے ہی دو خوبصورت فوارے ہوا کرتے تھے لیکن پھر کھوکھا سکیم شروع ہوئی تو سرکلر روڈ پر لوگوں نے کھوکھے رکھ لیے اور بعد میں کھوکھوں کی جگہ کو اپنے نام کروا لیا جس کے باعث وہ فوارے بھی اس سکیم کی زد میں آگئے۔ اصل میں کچہری بازار کے حُسن کو مسخ کرنے کا آغاز یہیں سے ہوا۔"
انھوں نے ستر کی دہائی کی سنہری یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ سرکلر روڈ سے کچہری بازار میں داخل ہوتے ہی ذیل گھر کی تاریخی عمارت کی اوپری منزل پر تب بھی اب کی طرح مختلف اخبارات کے دفاتر اور نیچے مختلف اشیاء کی دوکانیں قائم تھیں۔
"جہاں اب یو بی ایل بینک کی عمارت ہے اس کے سامنے فٹ پاتھ پر چھڑکاؤ کر کے غریب اخبار کے مالک ریاست علی آزاد، شوکت ناز، شاعر و ادیب ناسخ سیفی، خالق قریشی اور ایوب سرور جیسے مشہور لوگ گپ شپ کے لیے جمع ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح بائیں طرف شروع میں جہاں اب جنگ اخبار اور کرنسی ایکسچینج والوں کے دفاتر ہیں وہاں اس وقت راجہ ہوٹل ہوتا تھا۔ اُس کے ساتھ ہی چاچا چائے والا بیٹھتا تھا جس کے چائے خانے کو وہی مقام حاصل تھا جو کہ لاہور میں پاک ٹی ہاؤس کو۔"
انھوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا تب کمیٹی کی طرف سے دن میں دو بار پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا اور جھاڑو لگتا تھا۔ اس کے علاوہ بازار میں پول لگے ہوئے تھے جن پر رات کو تیل کے چراغ جلائے جاتے تھے جس سے ماحول بڑا زبردست ہو جاتا تھا۔
شیخ ظفر اس بازار میں گزشتہ کئی دہائیوں سے عثمان فیبرکس کے نام سے کپڑے کا کاروبار کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے 1964ء میں یہاں الیکٹرونکس کا کام شروع کیا تھا۔ اس وقت بازار میں بڑا خوبصورت نظارا ہوتا تھا۔ یہاں تانگے اور ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں جو جی ٹی ایس چوک سے آ کر امین پور بازار سے ہوتی ہوئیں نڑ والا روڈ کی طرف جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہاں کاسمیٹیکس، سپورٹس، فرنیچر، گھڑیوں، سائیکلوں، ریڈیو، جوتوں اور ادویات کے بڑے بڑے اسٹورز تھے۔ جن پر شہر کی مشہور شخصیات اور امیر لوگ اپنے خاندان کے ہمراہ خریداری کے لیے آیا کرتے تھے۔
"اُس وقت اس بازار میں چیف بوٹ ہاوس، بخش اینڈ کمپنی (چیمپین کلاک والے) آسکو سٹور (کھیلوں کے سامان کا سٹور) تاج فرنیچر ہاؤس، تاج اینڈ کمپنی (ریڈیو اور کاسمیٹیکس کی دوکان) کوثر بیکری، الفا سٹور (گارمنٹس کی دوکان)، گورے اینڈ گورے (میڈیکل سٹور) زمیندار سائیکل سٹور (جہاں پر مشہور برطانوی سائیکل فلپس اور ریلے دستیاب ہوتے تھے) جیسی مشہور دوکانوں کے علاوہ جہانگیر، گرینڈ اور کاسموس جیسے مشہور ہوٹل بھی واقع تھے۔ ان میں سے کچھ دوکانیں اور ہوٹل آج بھی موجود ہیں۔"
تجمل حُسین نے ستر کی دہائی میں یہاں فوٹو فئیر کے نام سے تصویریں بنانے کا کاروبار شروع کیا تھا اور آج کل ان کے بیٹے اسی دوکان میں موبائل فونز کا کاروبار کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے کاروبار شروع کیا تب بازار میں دو طرفہ پارکنگ ہوتی تھی۔ ٹریفک کا رش اس لیے نہیں تھا کہ صرف تین چار لوگوں کے پاس کاریں تھیں، چند ایک کے پاس ویسپا موٹر سائیکل جبکہ باقی تمام لوگ سائیکل پر آیا جایا کرتے تھے۔
"میرے خیال میں اس بازار کو تباہ کرنے کی بنیاد موبائل فون کے کاروبار نے ڈالی۔ سب سے پہلے یہاں سلیکٹو موبائل والوں نے دوکان کھولی جس کے بعد آہستہ آہستہ پورا بازار ہی موبائل فونز کے کاروبار کی لپیٹ میں آ گیا۔ ہمارے زمانے میں یہاں آج کل کے سپر سٹورز جتنی بڑی بڑی اور کُھلی دوکانیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کون سی دوکان ہے اور کون سی نہیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ پُرانا کچہری بازار تو اب ایک خواب لگتا ہے۔
"سچ پوچھیں تو میرا اب یہاں آنے کو دل نہیں کرتا، میرے بیٹے ہی کام سنبھالتے ہیں۔ پرانے لوگوں میں سے اب گِنے چنے لوگ ہی رہ گئے ہیں، جیسے کے رفیق واچ کمپنی، چیف بوٹ ہاؤس، جہانگیر مرغ پلاؤ، اور عثمان فیبرکس والے وغیرہ۔"
ان کا خیال ہے کہ ترقی ہونی چاہیے مگر کسی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں۔
"افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے پلاننگ کے تحت بننے والی چیزوں کو بھی برباد کر دیا ہے۔ کہاں گھنٹہ گھر کے آٹھ بازار پورے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھے اور اب اپنے شہر کے لوگ بھی یہاں آنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ تو اب مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا ہے
Source:http://faisalabad.sujag.org/feature/51527/katechehry-bazar-faisalabad-history