گزشتہ برس اکیس نومبر کی شام کو
فیصل آباد کے علاقے غلام محمد آباد کے رہائشی وحید عبد اللہ کے گھر اُس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب ماں باپ اپنے اکلوتے بیٹے اور تین بہنیں اپنے واحد بھائی حسان وحید کی اکیسویں سالگرہ کی تیاریوں میں مصروف اُس کے گھر لوٹنے کا انتظار کر رہے تھے مگر حسان کی جگہ اُس کی مسخ شُدہ لاش گھر لوٹی۔حسان کیمیکل انجنیئرنگ کے طالبِ علم تھے اور سمن آباد کے ریلوے پھاٹک سے گُزرتے ہوئے ٹرین کی زد میں آکر اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔سُجاگ سے بات کرتے ہوئے حسان کے والد کا کہنا تھا کہ اُن کے بیٹے کی موت کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ انتظامیہ ہے جنہوں نے شہری حدود میں آنے والے ریلوے پھاٹکوں پر بھی ایسے انتظامات نہیں کیے کہ شہریوں کی جانیں محفوظ رہ سکیں۔ فیصل آباد میں ٹرین کی ٹکر سے کسی کی جان جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ ریسکیو 1122 سے لیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ اور رواں سال اب تک لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد ٹرین کی زد میں آ کر موت کے منہ میں جا چُکے ہیں۔دوسری جانب الائیڈ اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال سے لئے گئے اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں دو سو کے قریب افراد ٹرین کی زد میں آکر زخمی ہوئے یا موت کے منہ میں چلے گئے۔فیصل آباد میں سمن آباد سے لے کر نشاط آباد تک لگ بھگ پچاس ریلوے کراسنگز آتی ہیں جن میں صرف پانچ پر پھاٹک اور دربان موجود ہیں جبکہ باقی مقامی لوگوں کی زندگیوں کے لیے مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان ریلوے کی جانب سے 2014ء میں جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے تقریباً پونے بارہ ہزار کلومیٹر لمبے ریلوے ٹریک پر صرف بارہ کے قریب کراسنگ ایسے ہیں جن پر پھاٹک موجود ہونے کے ساتھ ساتھ عملہ بھی تعینات ہے جبکہ تقریباً ساڑھے پچیس سو کراسنگز پر عملہ اور پھاٹک موجود نہیں۔دوسری جانب ریلوے قوانین کے مطابق ریلوے ٹریک کے ارد گرد پچاس فٹ تک کوئی دوکان یا رہائشی مکان نہیں بنایا جا سکتا مگر فیصل آباد میں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔فیصل آباد میں سمن آباد سمیت عموماً جگہوں پر ریلوے لائن سے صرف بیس میٹر کے فاصلے پر رہائش گاہیں بنائی گئی ہیں جس کے باعث حادثات معمول بن گئے ہیں۔ فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر بطور اسٹیشن ماسٹر خدمات سر انجام دے رہے نہال خان کا سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تجاوزات کی روک تھام کے حوالے سے ریلوے حکام بے بس ہیں۔ "ہم نے کئی بار کوشش کی ہے کہ تجاوزات کو ختم کیا جائے لیکن ہمیشہ حکام بالا کی جانب سے روک دیا جاتا ہے، تجاوزات کو تب تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک اعلی افسران ریلوے کے نچلے عملے کے ساتھ تعاون نہ کریں۔"انھوں نے کہا کہ چونکہ ریلوے لائن کے ارد گرد لوگ کئی دہائیوں سے آباد ہیں اس لیے حکومتی قوانین کے مطابق انھیں تب تک یہاں سے نہیں اُٹھایا جا سکتا جب تک متبادل جگہ نہ دی جائے۔اُن کا ماننا ہے کہ اگر ان ناجائز تجاوزات کو ختم کر دیا جائے تو انسانی جانوں کے ضیاع سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ فیصل آباد سے روزانہ کی بنیاد پر جھنگ، ملتان اور دیگر شہروں کو جانے والی پانچ ٹرینیں گزرتی ہیں اور زیادہ تر علاقوں میں پارکس کی کمی کے باعث بچے عموماً ریلوے لائن پر ہی کھیلتے نظر آتے ہیں۔گزشتہ پینتالیس سال سے ریلوے کی زمین پر قائم گھر میں مقیم عباس علی کہتے ہیں کہ اُنھیں کبھی بھی کسی حکومتی عہدیدار کی جانب سے یہ جگہ چھوڑنے کا نہیں کہا گیا۔"ہم اور ہمارے بچے ریلوے لائن کے ساتھ رہنے اور زندگی گُزارنے کے عادی ہو چُکے ہیں اس لیے ٹرین سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہاں زیادہ تر اُن لوگوں کی اموات ہوتی ہی جو پہلے یہاں نہیں آئے ہوتے۔"یاد رہے کہ ریلوے ایکٹ 1890ء کے سیکشن نمبر بارہ کی رو سے بغیر پھاٹک لیول کراسنگ پر پھاٹک لگانا متعلقہ سڑک یا راستہ بنانے والی اتھارٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے تاہم اس کی منظوری ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ریلوے سے لینا ضروری ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریلوے کراسنگز پر پھاٹک لگانے اور ناجائز تجاوازات کے خاتمے کا عوامی مطالبہ کبھی پورا ہو پائے گا یا اسی طرح لوگ موت کے
منہ میں جاتے رہیں گے؟
Copy from:http://faisalabad.sujag.org/
loading...
0 comments: